پاکستان میں صدارتی انتخابات کی تیاریاں اپنے آخری مراحل میں ہیں اور پیپلز پارٹی کے علاوہ حزب مخالف کی تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخاب کے بائیکاٹ اور انتیس ستمبر کو قومی و صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے اعلان کے بعد وکلا کی جانب سے ریٹائرڈ جج کو جرنیل کے مقابلے میں صدارتی امیدوار نامزد کرنے سے دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے صدر منیر اے ملک اور ان کے رفقاء کی جانب سے جسٹس وجیہہ الدین کو جنرل پرویز مشرف کے مقابلے میں انتخاب لڑانے کے اعلان پر ملا جلا رد عمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ بار کے وکلا کےایک سرکردہ رہنما احسن بھون اور پیپلز پارٹی کے سینیٹر عبدالطیف کھوسہ سمیت بعض وکلاء کھلم کھلا جسٹس وجیہہ الدین کی نامزدگی کی مخالفت کر رہے ہیں۔
جبکہ منیر اے ملک ہوں یا جسٹس (ر) طارق محمود وہ اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسا کرنا لازمی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’ہم جانتے ہیں کہ ہمارے پاس عددی اکثریت نہیں ہے اور جسٹس وجیہہ الدین ہار جائیں گے لیکن صدر جنرل پرویز مشرف کی اہلیت کے خلاف سپریم کورٹ میں جو مقدمہ دائر کیا جانا ہے اس کے لیے ان کا امیدوار ہونا ضروری ہے،۔
تجزیہ کار ایاز امیر بھی کہتے ہیں کہ جو وکلا کی حکمت عملی ہے اس کے مطابق وہ اپنا پتہ درست کھیل رہے ہیں اور مستقبل قریب میں جو مقدمہ بازی ہوگی اس میں انہیں فائدہ ہوگا۔
جبکہ وزیر اطلاعات محمد علی درانی سمیت حکومت کے کچھ وزیر کافی خوش ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وکلاء نے صدارتی انتخابات میں حصہ لےکر اس کی قانونی حیثیت تسلیم کرلی ہے۔
اس بارے میں تجزیہ کار نسیم زہرہ کا موقف بھی وزیر اطلاعات سےملتا جلتا ہے اور وہ بھی کہتی ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ ایک طرف وکلا نے سسٹم میں رہتے ہوئے اپنی جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور دوسرا یہ کہ وکیلوں نے صدارتی انتخاب میں حصہ لے کر اُسے ایک لحاظ سے جائز قرار دیا ہے۔
مسلم لیگ نواز کے سرکردہ رہنما سید ظفر علی شاہ کہتے ہیں کہ جب حزب مخالف نے مستعفی ہونے کافیصلہ کیا ہے ایسے میں وکلا کی نامزدگی سیاسی جماعتوں کے لیے ایک نیک شگون ہے۔
جب ان سے پوچھا کہ ان کی نظر میں اگر وکلاء نے درست فیصلہ کیا ہے تو وہ مستعفی ہونے کے بجائے ووٹنگ میں حصہ کیوں نہیں لیتے تو انہوں نے کہا کہ ایسا کرنا اب مشکل ہے۔
موجودہ حالات میں حزب مخالف اور وکیلوں کی حکمت عملی کے متعلق لاہور یونیورسٹی آف مئنیجمینٹ سائنسز کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ ڈاکٹر رسول بخش رئیس بھی ان کی حامی نظر آتے ہیں۔
’وکلاء کے امیدوار کے اعلان کے پس پردہ مجھے کوئی خرابی نظر نہیں آتی بلکہ گزشتہ چھ ماہ سے سول سوسائٹی کی تنظیمیں سیاسی جماعتوں سے علیحدہ رہ کر جدوجہد کرتی رہی ہیں اور یہ قدم بھی اس سلسلے کی کڑی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اگر مولانا فضل الرحمٰن صوبہ سرحد اسمبلی توڑنے کے لیے رضامند ہوجائیں تو پھر صدارتی انتخاب کا کالج متنازعہ بن سکتا ہے اور ایسے میں اگر جنرل پرویز مشرف زور زبردستی کی بنا پر منتخب بھی ہوتے ہیں تو اس کی مقامی یا عالمی سطح پر کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔
لیکن رسول بخش رئیس کہتے ہیں ’مجھے ایسا ہوتے دکھائی نہیں دیتا کیونکہ مولانا فضل الرحمٰن کی بھی حکومت سے بات چیت چل رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ابھی تک عدلیہ نے بعض مقدمات میں کچھ آزاد فیصلے دیے ہیں لیکن عدلیہ آج بھی بطور ایک مکمل آزدا ادارہ نہیں بن پائی۔
موجودہ صورتحال میں حکومت اور حزب مخالف کے کچھ نمائندوں اور بعض تجزیہ کاروں کی رائے اپنی جگہ لیکن اب بھی کچھ سیاسی تبصرہ کار کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں جب حکمران مسلم لیگ انتشار کا شکار ہے، متعدد اراکین صدر کو ووٹ نہ دینے کا اعلان کرچکے ہیں اور صدارتی انتخاب کی ووٹنگ بھی خفیہ ہوگی تو ایسے میں اگر اپوزیشن ووٹنگ میں حصہ لے تو کوئی سرپرائیز ملنے کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے صدر منیر اے ملک اور ان کے رفقاء کی جانب سے جسٹس وجیہہ الدین کو جنرل پرویز مشرف کے مقابلے میں انتخاب لڑانے کے اعلان پر ملا جلا رد عمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ بار کے وکلا کےایک سرکردہ رہنما احسن بھون اور پیپلز پارٹی کے سینیٹر عبدالطیف کھوسہ سمیت بعض وکلاء کھلم کھلا جسٹس وجیہہ الدین کی نامزدگی کی مخالفت کر رہے ہیں۔
جبکہ منیر اے ملک ہوں یا جسٹس (ر) طارق محمود وہ اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسا کرنا لازمی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’ہم جانتے ہیں کہ ہمارے پاس عددی اکثریت نہیں ہے اور جسٹس وجیہہ الدین ہار جائیں گے لیکن صدر جنرل پرویز مشرف کی اہلیت کے خلاف سپریم کورٹ میں جو مقدمہ دائر کیا جانا ہے اس کے لیے ان کا امیدوار ہونا ضروری ہے،۔
تجزیہ کار ایاز امیر بھی کہتے ہیں کہ جو وکلا کی حکمت عملی ہے اس کے مطابق وہ اپنا پتہ درست کھیل رہے ہیں اور مستقبل قریب میں جو مقدمہ بازی ہوگی اس میں انہیں فائدہ ہوگا۔
جبکہ وزیر اطلاعات محمد علی درانی سمیت حکومت کے کچھ وزیر کافی خوش ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وکلاء نے صدارتی انتخابات میں حصہ لےکر اس کی قانونی حیثیت تسلیم کرلی ہے۔
اس بارے میں تجزیہ کار نسیم زہرہ کا موقف بھی وزیر اطلاعات سےملتا جلتا ہے اور وہ بھی کہتی ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ ایک طرف وکلا نے سسٹم میں رہتے ہوئے اپنی جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور دوسرا یہ کہ وکیلوں نے صدارتی انتخاب میں حصہ لے کر اُسے ایک لحاظ سے جائز قرار دیا ہے۔
مسلم لیگ نواز کے سرکردہ رہنما سید ظفر علی شاہ کہتے ہیں کہ جب حزب مخالف نے مستعفی ہونے کافیصلہ کیا ہے ایسے میں وکلا کی نامزدگی سیاسی جماعتوں کے لیے ایک نیک شگون ہے۔
جب ان سے پوچھا کہ ان کی نظر میں اگر وکلاء نے درست فیصلہ کیا ہے تو وہ مستعفی ہونے کے بجائے ووٹنگ میں حصہ کیوں نہیں لیتے تو انہوں نے کہا کہ ایسا کرنا اب مشکل ہے۔
موجودہ حالات میں حزب مخالف اور وکیلوں کی حکمت عملی کے متعلق لاہور یونیورسٹی آف مئنیجمینٹ سائنسز کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ ڈاکٹر رسول بخش رئیس بھی ان کی حامی نظر آتے ہیں۔
’وکلاء کے امیدوار کے اعلان کے پس پردہ مجھے کوئی خرابی نظر نہیں آتی بلکہ گزشتہ چھ ماہ سے سول سوسائٹی کی تنظیمیں سیاسی جماعتوں سے علیحدہ رہ کر جدوجہد کرتی رہی ہیں اور یہ قدم بھی اس سلسلے کی کڑی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اگر مولانا فضل الرحمٰن صوبہ سرحد اسمبلی توڑنے کے لیے رضامند ہوجائیں تو پھر صدارتی انتخاب کا کالج متنازعہ بن سکتا ہے اور ایسے میں اگر جنرل پرویز مشرف زور زبردستی کی بنا پر منتخب بھی ہوتے ہیں تو اس کی مقامی یا عالمی سطح پر کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔
لیکن رسول بخش رئیس کہتے ہیں ’مجھے ایسا ہوتے دکھائی نہیں دیتا کیونکہ مولانا فضل الرحمٰن کی بھی حکومت سے بات چیت چل رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ابھی تک عدلیہ نے بعض مقدمات میں کچھ آزاد فیصلے دیے ہیں لیکن عدلیہ آج بھی بطور ایک مکمل آزدا ادارہ نہیں بن پائی۔
موجودہ صورتحال میں حکومت اور حزب مخالف کے کچھ نمائندوں اور بعض تجزیہ کاروں کی رائے اپنی جگہ لیکن اب بھی کچھ سیاسی تبصرہ کار کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں جب حکمران مسلم لیگ انتشار کا شکار ہے، متعدد اراکین صدر کو ووٹ نہ دینے کا اعلان کرچکے ہیں اور صدارتی انتخاب کی ووٹنگ بھی خفیہ ہوگی تو ایسے میں اگر اپوزیشن ووٹنگ میں حصہ لے تو کوئی سرپرائیز ملنے کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔