پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کے دو عہدوں کے خلاف آئینی درخواستوں کو پاکستان کی سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ نے اپنے اکثریتی فیصلے میں خارج کردیا ہے۔
نو رکنی بینچ کے چھ ججز نے آئینی درخواستیں خارج کرنے کے حق میں فیصلہ دیا جبکہ تین ججوں رانا بھگوان داس، سردار رضا خان اور شاکراللہ جان نے اختلافی رائے دی۔نو رکنی بینچ میں شامل چھ ججوں جسٹس جاوید اقبال، جسٹس عبدالحمید ڈوگر، جسٹس فلک شیر، جسٹس نواز عباسی، جسٹس فقیر محمد کھوکھر اور جسٹس ایم جاوید بٹر نے آئینی درخواستیں خارج کرنے کے حق میں فیصلہ دیا۔
سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے فیصلے کے بعد اخبار نویسوں سے بات کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما سینیٹر پروفیسر خورشید احمد نے کہا کہ ان کی جماعت اس فیصلہ کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کرے گی۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنے بیان میں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے فیصلے کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے سے پاکستان کے حالیہ سیاسی بحران میں مزید اضافہ ہوگا۔
اس سے پہلے بینچ نے صدر کے دو عہدے رکھنے، سترہویں آئینی ترمیم اور جنرل مشرف کے وردی میں صدارتی انتخاب لڑنے کے خلاف آئینی درخواستوں پر سماعت جمعہ کے روز مکمل کرلی اور اعلان کیا فیصلہ مقامی وقت کے مطابق دو پہر دو بجکر پندرہ منٹ پر سنایا جائے گا۔ تاہم فیصلے کے اعلان میں تاخیر ہوئی اور تقریباً ساڑھے تین بجے فیصلے کا اعلان کیا گیا۔
جمعہ کے روز ممتاز قانون دان عبدالحفیظ پیرزادہ نے عدالت کے معاون کی حیثیت سے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ نااہلیت کی شق صدر مشرف پر لاگو نہیں ہوتی۔
سماعت کے دوران ایک موقع پر نو رکنی بینچ میں شامل جسٹس جاوید اقبال نے ان سے استفسار کیا کہ اگر آئین میں کی جانے والی سترہویں ترمیم کو ختم کر دیا جائے تو اس کے کیا نتائج ہوں گے تو انہوں نے جواب میں کہا کہ اس سے افراتفری پھیلے گی۔
بعد میں جواب الجواب کے طور پر دلائل دیتے ہوئے جماعت اسلامی کے وکیل اکرم شیخ نے عدالت سے کہا کہ سب نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں اور اس کا فیصلہ دور رس نتائج کا حامل ہوگا۔
اس موقع پر جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کی جد و جہد میں بار اور میڈیا کا کردار ناقابلِ فراموش ہے لیکن عدالت کو تو وہی فیصلہ دینا ہے جو قانون کے مطابق ہو۔
اکرم شیخ نے بینچ میں شامل جج صاحبان کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے صدر مشرف کی وردی کو جائز قرار دیا تھا، اب آپ ہی ان کی وردی اتاریں۔ اس کے جواب میں جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ عدالت نے جنرل مشرف کو ایک خاص مدت تک وردی کے ساتھ صدارتی عہدہ رکھنے کی اجازت دی تھی لیکن اس کو قانونی حیثیت قومی اسمبلی نے آئین میں سترہویں ترمیم کے ذریعے دی ہے۔
بعد میں تحریک انصاف کے وکیل حامد خان اور پاکستان لائرز فورم کے سربراہ اے کے ڈوگر نے بھی جواب الجواب کے طور پر دلائل دیے۔
حامد خان نے کہا کہ پرویز مشرف کو کہ آرمی چیف بھی ہیں سیاست میں حصہ لے سکتے جبکہ عام سرکاری افسر ایسا نہیں کرسکتا جوکہ ایک واضح تضاد ہے۔ انہوں نے اٹارنی جنرل کے بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ آرمی جنرل کی ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر نہیں ہے جس پر انہوں نے کہا کہ ایک فوج کا جنرل باسٹھ سال کی عمر میں ریٹائر ہوجاتا ہے۔
پاکستان لائرز فورم کے وکیل اے کے ڈوگر نے سیاسی انصاب بھی بنیادی انسانی حقوق میں آتا ہے۔ جس طرح عدالت سنہ انیس سو اٹھاسی میں نے بنظیر بھٹو کے کیس میں دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جنرل پرویز الیکشن سے پہلے نااہلی کے زمرے میں آتے ہیں کیونکہ انہوں نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے ۔
سپریم کورٹ کے زیر سماعت ان آئینی درخواستوں میں جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، کمیونسٹ پارٹی کے انجینئر جمیل ملک اور پمز ہسپتال کے ایک سابق ڈاکٹر انوار الحق کی درخواستیں شامل ہیں۔
بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس جاوید اقبال، جسٹس عبدالحمید ڈوگر، جسٹس سردار محمد رضا خان، جسٹس فلک شیر، جسٹس محمد نواز عباسی، جسٹس فقیر محمد کھوکھر، جسٹس ایم جاوید بٹر اور جسٹس شاکراللہ جان شامل ہیں۔
پاکستان کے اٹارنی جنرل ملک محمد قیوم کمرہ عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ قومی اہمیت کا حامل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر فیصلہ درخواست گزاروں کے حق میں آتا تو پھر ٹھیک تھا اور اب یہ فیصلہ ان کے خلاۓ آیا ہے اس لیے یے انہیں پسند نہیں ہے۔
عمران خان کے وکیل حامد خان نے کمرہ عدالت کے باہر اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو اس کا فیصلہ میرٹ پرہوناچاہیے تھا اور اس کی ٹیکنیکیلٹی میں نہیں پڑنا چاہیے۔ انہوں نے اس فیصلے کو مولوی تمیزالدین ، نصرت بھٹو اور ظفر علی شاہ کیسز کا تسلسل قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ وکلاء کی تحریک جاری رہے گی۔ حامد خان نے کہا کہ ہم سمجھتے تھے کہ عدلیہ آزاد ہوگئی ہے لیکن ابھی بہت سے معاحل طے کرنا ابھی باقی ہیں۔
اس مقدمے میں سماعت کا آغاز سترہ ستمبر سے ہوا تھا ۔ عدالت کی معاونت کے لیے تین وکلاء عدالت میں پیش ہوئے ان میں ایس ایم ظفر، عبدالحفیظ پیرزادہ اور اعتزاز احسن شامل ہیں۔