"بس" وہ سواری ہے جس میں بیٹھ کر انسان" بے بس" ہو جاتا ہے۔ یہی وہ سواری ہے جس کی وجہ سے دیرسے گھر پہنچنے پر بیگم سے اور دفتر پہنچنے پر افسر سے ڈانٹ کھانا پڑتی ہے۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ بسوں میں سفر کرنے پر کیا کیا گزرتی ہے اور کیا کیا سہنا پڑتا ہے۔ اور تو اور لیڈیزسیٹ کے سامنے لگے آڑھے ترچھے شیشے بھی حسن کا نظارہ دکھلاتے ہیں کہ کسی طرح تو مسافر کا دل بہل جائے۔ ڈرائیور بھی اسی کوشش میں ہوتا ہے کہ مسافروں کا دل بہلارہے اسی لئے وہ ٹیپ پر گانے بجتا رہتا ہے ۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ مسافر پسینے سے شرابور ہو تے ہیں اورگانا چل ہوتا ہے "آدمی مسافر ہے ۔۔آتا ہے۔۔ جاتا ہے۔۔۔" گانے کی تیز آواز بس کی مری ہوئی رفتار پر کوئی صبر کا دامن ہاتھ سے کھو بیٹھتا ہے اور آواز لگاتا ہے ۔۔۔ او ئے بند کر یہ بکواس۔۔۔ کوئی آواز لگاتا ہے۔ "چل۔۔ چل میرے بھا ئی۔۔ تیرے ہاتھ جوڑتا ہوں" کوئی ٹریفک جام دیکھ کر شعر گنگناتا ہے:"سڑکوں پہ یہ منظر تو ہمیشہ عام ہوتا ہے۔ جدھر چاہے نکل جاؤ ٹریفک جام ہوتا ہے" کوئی واہ واہ کرتا ہے اور کوئی جواب کستا ہے: بسوں میں بے بسی انسان کی دیکھی نہیں جاتی۔۔۔ شرم تم کواے بس والو نہیں آتی" لاکھ کچھ کہہ لو۔ کوئی گرتا ہے گرے ان کی بلا سے۔کوئی مرتا ہے مرے ان کا کیا جائے گا۔ کبھی ہڑتال کبھی پہیہ جام ۔۔۔ اور پبلک پریشان۔ ترقی عروج پہ ہے پہلے لوگ بس کے اندر بیٹھ کر سفر کرتے تھے اب بسوں کی چھت بھی ناکافی ہوتی ہے۔ٹریفک پولیس کا نام و نشاں نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ نہ ان کا بس چلتا ہے اور نہ ان کی مرضی سے بس چلتی ہے۔ بس کیا چل رہی ہے زندگی چل رہی ہے سرپٹ دوڑ رہی ہے۔ آپ بھی اس طرح روز سفر سے لطف اندوز ہوتے ہوں گے۔ کیسی گزرتی ہے اور اگر بیوی بچے ساتھ ہوں تو کیا ہوتا ہے کہیں بیوی رہ گئی کہیں کوئی بچہ رہ گیا۔۔۔ اورکنڈیکٹر کی نظر سارجنٹ پہ ہوتی ہے ۔ اگر اٹک گیا تو گئی کمائی۔ ورنہ سارجنٹ کی بن آئی۔ کہئے یہی کچھ ہوتا ہے۔۔۔ نا! آپ بھی رائے دیجئے۔آپ کے ساتھ کیا گذری۔
"بس" وہ سواری ہے جس میں بیٹھ کر انسان" بے بس" ہو جاتا ہے۔ یہی وہ سواری ہے جس کی وجہ سے دیرسے گھر پہنچنے پر بیگم سے اور دفتر پہنچنے پر افسر سے ڈانٹ کھانا پڑتی ہے۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ بسوں میں سفر کرنے پر کیا کیا گزرتی ہے اور کیا کیا سہنا پڑتا ہے۔ اور تو اور لیڈیزسیٹ کے سامنے لگے آڑھے ترچھے شیشے بھی حسن کا نظارہ دکھلاتے ہیں کہ کسی طرح تو مسافر کا دل بہل جائے۔ ڈرائیور بھی اسی کوشش میں ہوتا ہے کہ مسافروں کا دل بہلارہے اسی لئے وہ ٹیپ پر گانے بجتا رہتا ہے ۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ مسافر پسینے سے شرابور ہو تے ہیں اورگانا چل ہوتا ہے "آدمی مسافر ہے ۔۔آتا ہے۔۔ جاتا ہے۔۔۔" گانے کی تیز آواز بس کی مری ہوئی رفتار پر کوئی صبر کا دامن ہاتھ سے کھو بیٹھتا ہے اور آواز لگاتا ہے ۔۔۔ او ئے بند کر یہ بکواس۔۔۔ کوئی آواز لگاتا ہے۔ "چل۔۔ چل میرے بھا ئی۔۔ تیرے ہاتھ جوڑتا ہوں" کوئی ٹریفک جام دیکھ کر شعر گنگناتا ہے:"سڑکوں پہ یہ منظر تو ہمیشہ عام ہوتا ہے۔ جدھر چاہے نکل جاؤ ٹریفک جام ہوتا ہے" کوئی واہ واہ کرتا ہے اور کوئی جواب کستا ہے: بسوں میں بے بسی انسان کی دیکھی نہیں جاتی۔۔۔ شرم تم کواے بس والو نہیں آتی" لاکھ کچھ کہہ لو۔ کوئی گرتا ہے گرے ان کی بلا سے۔کوئی مرتا ہے مرے ان کا کیا جائے گا۔ کبھی ہڑتال کبھی پہیہ جام ۔۔۔ اور پبلک پریشان۔ ترقی عروج پہ ہے پہلے لوگ بس کے اندر بیٹھ کر سفر کرتے تھے اب بسوں کی چھت بھی ناکافی ہوتی ہے۔ٹریفک پولیس کا نام و نشاں نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ نہ ان کا بس چلتا ہے اور نہ ان کی مرضی سے بس چلتی ہے۔ بس کیا چل رہی ہے زندگی چل رہی ہے سرپٹ دوڑ رہی ہے۔ آپ بھی اس طرح روز سفر سے لطف اندوز ہوتے ہوں گے۔ کیسی گزرتی ہے اور اگر بیوی بچے ساتھ ہوں تو کیا ہوتا ہے کہیں بیوی رہ گئی کہیں کوئی بچہ رہ گیا۔۔۔ اورکنڈیکٹر کی نظر سارجنٹ پہ ہوتی ہے ۔ اگر اٹک گیا تو گئی کمائی۔ ورنہ سارجنٹ کی بن آئی۔ کہئے یہی کچھ ہوتا ہے۔۔۔ نا! آپ بھی رائے دیجئے۔آپ کے ساتھ کیا گذری۔