دنیا کا شائد ہی کوئی ایسا ملک ہوگا جہاں پاکستان میں ہونے والی سیاست کو امیزنگ نہ کہا جاتا ہو،تاریخ پر روشنی ڈالیں تو نشیب و فراز کی ایک عجب داستان رقم ہے۔پاکستان کی سیاست میں جو کوئی نہیں سوچتا وہ ہوجاتا ہے۔پہلی غلطی اسکندر مرزا کی تھی جو صدر ایوب کو لائے لیکن یہ نہیں جانتے تھے کہ آنے والا وقت اتنا کڑوا ہوگا کہ ان کے جسد خاکی کو بھی جنرل ایوب ارض پاک میں سپرد خاک کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ جنرل ایوب کا ساتھ دیا ذوالفقار علی بھٹو نے… لیکن بعد میں مخالفت یحییٰ خان کو اقتدار میں لے آئی۔حالات اس قدر خراب ہوئے کہ ارضِ پاک دو لخت ہوگئی۔ذوالفقار علی بھٹو کو پورا پلیٹ فارم میسر آیا تو اس لیڈر کی عوام کیلئے قربانیاں اور محنت کوتو فراموش نہیں کیا جاسکتا لیکن وہ ناواقف تھے کہ جس جرنیل کو وہ اپنے دور اقتدار میں پِک کریں گے وہی انہیں پھانسی کے پھندے تک لے کر جائے گا۔ ایک اہم دور اپنے اختتام کو پہنچا تومحمد خان جونیجو کی باری آئی اور ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا جو پچھلے ادوار میں فوج اور سیاست دانوں کے درمیان ایک عجیب سے ریلیشن شپ کی صورت میں دیکھنے کو ملا۔سیاست کیا ہوئی قیام پاکستان کے بعد تو بس اقتدار کی ایک دوڑ ہی نظر آئی ۔ اب جب سولی چڑھائے گئے لیڈر کی بیٹی کو پہلی بار اقتدار ملا تو کرپشن نے ان کا بھی تختہ الٹ دیا۔ایک نئے لیڈر کو موقع ملا اقتدار کا… اسلامی جمہوری اتحاد قائم ہوا بینظیر بھٹو کے خلاف لیکن یہاں بھی اس وقت کے صدر غلام اسحق خان نے نواز شریف کا وہی حال کیا جو اس سے پہلے وہ بینظیر بھٹو کے ساتھ کرچکے تھے۔کامیابی نے ایک بار پھر قدم چومے بی بی کے…حکمرانی کرنے کا دوسرا موقع یقینابھٹو خاندان کیلئے باعث ِ اعزاز تھالیکن یہ سیاست بھی کیا چیز ہے کہ کوئی بھی دور دیکھ لیجیے جس نے کسی کا ساتھ دیا اس نے ہی وار کیا۔ فاروق احمد خان لغاری کو صدر کی کرسی تک لانے والی اپنے ہی ساتھی کی شکار بنیں۔یہ ایک ایسا دور تھا جہاں فوج ورسز سیاست دان نہیں بلکہ سیاستدان ورسز سیاستدان تھااور وہ بھی علیحدہ نہیں بلکہ ایک ہی پارٹی تھے۔اب موقع ملا اپوزیشن کو اور جنرل ضیاء کی انگلی پکڑ کر سیاست کے گر سیکھنے والامیاں خاندان کے روشن خواب کو تعبیر تو دے گیا لیکن سولہ کروڑ پاکستانی وہیں کے وہیں کھڑے نظر آئے۔ شاید اب تک آنے والے سیاستدانوں کے خاندان تو بہتر زندگی گزار رہے ہوں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک عام آدمی وہی تین وقت کی روٹی کی فکر سے آگے نہیں بڑھ پایا ہے۔ فوج پھر مد مقابل ہوئی اور کارگل کے بعد کی صورتحال سب کے سامنے ہے جس کے بعد جنرل پرویز مشرف اور نواز شریف کے درمیان سال 2000ء میں ہونے والا مافیا طرز کا معاہدہ طے پایا ۔ یہ ہے وہ صورتحال جہاں عوام اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یقین کس پر کیا جائے۔ وہی نواز شریف جو ملک کی ترقی اور خوشحالی کے وعدے کرتا ہے ایک بار معاہدہ نہ کرنے کا بیان تو دوسری طرف پانچ سال کے ایگریمنٹ کا اعتراف بھی ۔ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا اس کا علم ہمارے سیاستدانوں اور جرنیلز سے زیادہ کوئی نہیں جانتا لیکن اب لگتا یہ ہے کہ پاکستانی معاملات میں حرف آخر کی حیثیت رکھنے والی دنیا کی واحد طاقت نہیں چاہتی کہ نوازشریف مستقبل کے اس سیاسی منظر میں بگاڑ پیدا کریں جو وہ جنرل پرویز مشرف اور بینظیر بھٹو کے اشتراک سے ترتیب دینا چاہتی ہے تو اب دو ہی راستے نظر آرہے ہیں یا تو سیاستدان فوج سے شراکت اقتدار کو کڑوی گولی کی طرح نگل لیں یا متحد ہو کر فوج کو بیرکوں میں واپسی کا راستہ دکھائیں۔جیت کسی کی بھی ہو وقتی طور پر تو کامیابی کے شادیانے بجیں گے لیکن گزرے اوقات کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھنا یہ ہوگا کہ فوج اور سیاستدان کے مابین یہ نیا اتحاد آنے والے وقت میں بھی برقرار رہے گا؟ …(جیو ٹی وی کی ایک رپورٹ سے ماخذ )
اس پر آپ کا کیا رد عمل ہے؟
اس پر آپ کا کیا رد عمل ہے؟