صوبہ سرحد کے ضلع سوات میں مقامی طالبان کی طرف سے لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کو دی گئی مہلت کے خاتمے پر نجیتعلیمی اداروں نے لڑکیوں کے سکول عام تعطیلات کے بعد نہ کھولنے کا اعلان کیا ہے۔
سوات میں نجی تعلیمی اداروں کی تنظیم (پی ایم ایس اے ) کے چئیر مین احمد شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ سوات میں مقامی طالبان کی جانب سے لڑکیوں کے نجی تعلیمی اداروں کو بند کرنے کے حوالے سے دی گئی مہلت جمعرات سے ختم ہورہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چھٹیاں ختم ہونے کے بعد لڑکیوں کے سکول نہیں کھولے جائیں گے جب تک مقامی طالبان خود آکر ایف ایم پر اپنے فیصلے کے واپسی کا اعلان نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم تعلیمی ادارے کھول بھی دیں تب بھی والدین علاقے میں غیر یقینی صورتحال کے باعث اپنے بچوں کو سکول نہیں بھجیں گے۔
انہوں نے کہا کہ آج سے ضلع بھر میں تمام نجی تعلیمی ادارے موسم سرما کی تعطیلات کے لیے بھی بند ہورہے ہیں تاہم ان کی بندش کی بڑی وجہ طالبان کی طرف سے اعلان ہے جو آج سے نافذ العمل ہوگا۔
احمد شاہ کا کہنا تھا کہ سوات کی مقامی انتظامیہ نےدو دن قبل تمام پرائیوٹ سکولوں کے مالکان کو طلب کرکے نجی سکولوں کو سکیورٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی تاہم سکول مالکان نے اس غیر یقینی صورتحال میں تعلیمی ادارے کھولنے سے انکار کردیا۔
’حقیقت یہ ہے کہ ہم طالبان کے حکم کو توڑ نہیں سکتے کیونکہ ہم نے دیکھا ہے جو کوئی عسکریت پسندوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے وہ دوسرے دن اس دنیا میں نہیں ہوتا اور اس کے علاوہ بھی ہمارے سامنے ڈیڑہ سو سے زائد سکولوں کو تباہ کیا جاچکا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں کے بندش سے سب سے زیادہ نقصان بھی ہمارا ہی ہے کیونکہ جب ادارے بند ہونگے تو والدین ہمیں فیس تو نہیں دینگے لیکن یہ اعلان ہم انتہائی سخت مجبوری کے عالم میں کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک سوات میں حالات مکمل طورپر پرامن نہیں ہوتے ہم اس وقت تک اپنے ادارے نہیں کھولیں گے۔
گزشتہ ماہ سوات میں طالبان کے ایک مقامی رہنماء مولانا شاہ دورن نے اپنے غیر قانونی ایف ایم پر آج یعنی پندرہ جنوری سے لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا۔
سوات میں گزشتہ ایک سال کے دوران ایک سو پچاس کے قریب تعلیمی اداروں کو بم دھماکوں یا نذرآتش کرکے تباہ کیا گیا ہے۔ ان میں اکثریت لڑکیوں کے تعلیمی ادارے شامل ہیں۔ ان حملوں کی وجہ سے ضلع بھر میں تقریباً ستر ہزار کے قریب لڑکیاں تعلیم کی حصول سے محروم ہوچکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چھٹیاں ختم ہونے کے بعد لڑکیوں کے سکول نہیں کھولے جائیں گے جب تک مقامی طالبان خود آکر ایف ایم پر اپنے فیصلے کے واپسی کا اعلان نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم تعلیمی ادارے کھول بھی دیں تب بھی والدین علاقے میں غیر یقینی صورتحال کے باعث اپنے بچوں کو سکول نہیں بھجیں گے۔
انہوں نے کہا کہ آج سے ضلع بھر میں تمام نجی تعلیمی ادارے موسم سرما کی تعطیلات کے لیے بھی بند ہورہے ہیں تاہم ان کی بندش کی بڑی وجہ طالبان کی طرف سے اعلان ہے جو آج سے نافذ العمل ہوگا۔
احمد شاہ کا کہنا تھا کہ سوات کی مقامی انتظامیہ نےدو دن قبل تمام پرائیوٹ سکولوں کے مالکان کو طلب کرکے نجی سکولوں کو سکیورٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی تاہم سکول مالکان نے اس غیر یقینی صورتحال میں تعلیمی ادارے کھولنے سے انکار کردیا۔
’حقیقت یہ ہے کہ ہم طالبان کے حکم کو توڑ نہیں سکتے کیونکہ ہم نے دیکھا ہے جو کوئی عسکریت پسندوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے وہ دوسرے دن اس دنیا میں نہیں ہوتا اور اس کے علاوہ بھی ہمارے سامنے ڈیڑہ سو سے زائد سکولوں کو تباہ کیا جاچکا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں کے بندش سے سب سے زیادہ نقصان بھی ہمارا ہی ہے کیونکہ جب ادارے بند ہونگے تو والدین ہمیں فیس تو نہیں دینگے لیکن یہ اعلان ہم انتہائی سخت مجبوری کے عالم میں کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک سوات میں حالات مکمل طورپر پرامن نہیں ہوتے ہم اس وقت تک اپنے ادارے نہیں کھولیں گے۔
گزشتہ ماہ سوات میں طالبان کے ایک مقامی رہنماء مولانا شاہ دورن نے اپنے غیر قانونی ایف ایم پر آج یعنی پندرہ جنوری سے لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا۔
سوات میں گزشتہ ایک سال کے دوران ایک سو پچاس کے قریب تعلیمی اداروں کو بم دھماکوں یا نذرآتش کرکے تباہ کیا گیا ہے۔ ان میں اکثریت لڑکیوں کے تعلیمی ادارے شامل ہیں۔ ان حملوں کی وجہ سے ضلع بھر میں تقریباً ستر ہزار کے قریب لڑکیاں تعلیم کی حصول سے محروم ہوچکی ہیں۔